ہم تو اک بوند کو ترستے ہیں
تیرے بادل کہاں برستے ہیں؟
سب نے جانا ہے ایک منزل کو
پھر جدا کیوں سبھی کے رستے ہیں؟
دل ہیں کہ غم سے بھر گئے ہوں گے
لوگ ہیں پھر بھی ہنستے بستے ہیں
گو ذرا سی جگہ ہے یہ دل پر
سینکڑوں درد اس میں بستے ہیں
ہو گئیں مہنگی کس قدر خوشیاں
دیکھ لو غم ابھی بھی سستے ہیں
سنگ تمہارے رہوں،کہ مر جاؤں
سامنے میرے دو ہی رستے ہیں
میں اسے دیکھ دیکھ روتا ہوں
دیکھ کہ لوگ مجھ کو ہنستے ہیں
سانپ مجبور اپنی عادت سے
لوگ تو بے وجہ ہی ڈستے ہیں
گرچہ "نادمؔ" بہت ہی تنگ دل ہے
پھر بھی "سال" اس کے دل میں بستے ہیں
قاسم صدیق نادمؔ
21جنوری2015
تیرے بادل کہاں برستے ہیں؟
سب نے جانا ہے ایک منزل کو
پھر جدا کیوں سبھی کے رستے ہیں؟
دل ہیں کہ غم سے بھر گئے ہوں گے
لوگ ہیں پھر بھی ہنستے بستے ہیں
گو ذرا سی جگہ ہے یہ دل پر
سینکڑوں درد اس میں بستے ہیں
ہو گئیں مہنگی کس قدر خوشیاں
دیکھ لو غم ابھی بھی سستے ہیں
سنگ تمہارے رہوں،کہ مر جاؤں
سامنے میرے دو ہی رستے ہیں
میں اسے دیکھ دیکھ روتا ہوں
دیکھ کہ لوگ مجھ کو ہنستے ہیں
سانپ مجبور اپنی عادت سے
لوگ تو بے وجہ ہی ڈستے ہیں
گرچہ "نادمؔ" بہت ہی تنگ دل ہے
پھر بھی "سال" اس کے دل میں بستے ہیں
قاسم صدیق نادمؔ
21جنوری2015
No comments: