ج اک کام کیا خود کو سزا دی ہم نے
اس کی ہر یاد ، ہر اک بات بھلا دی ہم نے
خواب آئے تو انھیں ٹال دیا دھوکے سے
دل میں حسرت جو کوئی جاگی دبا دی ہم نے
سامنے تیرے جو ہنستی رہی بڑی دیرتلک
تیرے جاتے ہی وہی آنکھ رلا دی ہم نے
تو نے ہر بار ہمیں درد دیے، خوار کیا
تجھ کو خوش رہنے کی، جینے کی دعا دی ہم نے
دیر تک جاگے تیرے ہجر کی راتوں میں اے دوست!
اور پھر سونے کی امید سلا دی ہم نے
خود پہ شرمندہ ہوں ،"نادمؔ" ہوں خدایا میرے!
تیرا مسکن تھا یہ دل،کس کو جگہہ دی ہم نے؟
قاسم صدیق نادم
No comments: